book reviews
About Book Reviews – Criteria
مستنصر حسین تارڑ ریڈرز ورلڈ تارڑ صاحب کو چاہنے والوں اور انہیں پڑھنے والوں کی خوبصورت آماجگاہ …. ریڈرز ورلڈ پہ تارڑ صاحب کے چاہنے والوں کو وہ ماحول میسر ہوتا ہے جو ایک قاری کو چاہیۓ ہوتا ہے ….. تارڑ صاحب کی تحاریر پڑھنے والے پہ طاری ہو جاتی ہیں اور اسے جکڑ لیتی ہیں ،، پڑھنے والا آہستہ آہستہ تارڑ صاحب کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور خود میں قلم تھامنے کی صلاحیت محسوس کرنے لگتا ہے ، ریڈرز ورلڈ کے عاطف فرید پڑھنے اور لکھنے والے دونوں کو خوشدلی سے ریڈرز ورلڈ میں خوش آمدید کہتے ہیں ،،،، عاطف فرید نے تارڑ صاحب کی کتب پہ تبصرہ جات اور دیگر تحاریر کے لیئے مستنصر حسین تارڑ ریڈرز ورلڈ فیس بک پے تشکیل دی ہے جہاں بہترین تبصرہ نگاری کرنے والے خوش نصیبوں کی تحاریر کو شامل کیا جائے گا ، اور ان تبصرہ نگاروں کی بہترین تحاریر کو منتخب کرنے کے لیئے جیوری تشکیل دی گئ ہے جس کے ممبران ہیں
قراۃ العین حیدر
علی عمر
K2 Kahani
آسمان پہ بکھرے لاکھوں ستارے ، دامن میں ہوں یہ سب تمہارے ، عازم سفر ہو منزل تیری تلاش میں, حق میں تیرے ہوں موسم یہ سارے کچھ ہواءیں صرف ان جسموں کو چھونے کیلئے بناءی ہیں جن کے دماغ میں آوارگی کا فتور ہوتا ہے۔ خواتین وحضرات سکردو جانے والی فلائٹ نمبر 162پرواز کیلئے تیار ہے سات سکے ایک فوارے کے پانیوں میں ۔ اے فوارے میرے سکے کا خیال رکھنا سات رک سیک اسلام آباد ایر پورٹ پر۔ اسلام آباد ایر پورٹ پر ایک تہذیب یافتہ شخص صدپارہ کی رات میں ایک وحشی تھا جسے اسکولے سے پرے اپنے جنگل میں جانا تھا۔ اسکولے روانگی سے قبل کچھ خدشات وسوسے اور واہمے تھے لیکن ایک شک بھری خوشی تھی سفر کی شام میں اداسی تو تھی لیکن جس دماغ میں فتور اور آنکھوں میں وحشت ہو اسکا جہاں انسانی آبادی سے پرے شروع ہوتا ہے شاندار سورج طلوع ہو رہا ہے ۔ شاندار سورج آہستہ آہستہ ابھر رہا ہے۔ ایک شاندار دن کا سورج پانچ رنگوں میں خدا کرے کچھ نہ بدلے خدا کرے قسمت ساتھ دے خدا کرے آج کچھ ہر طرف شگوفے کھلیں کے ٹو جانے کیلئے برالڈو گورج عبور کرنا ہوتا ہے جہاں چٹانوں میں کوئی راستہ نہیں اگر آپ پھسلتے ہیں تو سیدھا برالڈو میں ۔ لیکن پھر بھی جانا تو تھا کیونکہ کے ٹو ایک ایسا خواب تھا جو بہت سے آوارہ گردوں کی دھڑکن بے قابو کر دیتا ۔ہے اس لئے بہ مشکل پسینے میں نڈھال اکیلے کھاءی کے اوپر راستے بناتے گلیشیئر کی دراڑیں نظر انداز کرتے ایک کوہ پیماہ چلتا جاتا ہے اور پھر وہ مشابرم کو دیکھ لیتا اور اس کے سامنے بالتورو کے سفید برفانی ڈھیر اور آخر میں گشابرم کی پر کشش تکون نما چوٹی ۔ پہاڑوں کی سلطنت شروع ہو جاتی ہے پاوں سوج جاتے ہیں اور اب مشقت سے اٹھتے بھی نہیں جسمانی تھکاوٹ بھڑ چکی ہے نیلے آسمان تلے نیلے ڈرم اور سامان پڑا ۔ہے پھر وہ رک سیک کاندھے پہ ڈال کے چلنے لگتا ہے۔ ہمالیہ کے اندر پہنچ جاتا ہے قراقرم کے دل میں ۔برفانی وسعت کی کشش ان کے دلوں کو تسخیر کر رہی تھی کوئی نامعلوم سی خوشی ان کو شانت کرتی تھی اور اوڈییسس نے کشتی روک دی انسان اور پہاڑ کا رشتہ بہت پرانا ہےبلندی کی جستجو اسے پہاڑوں کی طرف لے جاتی ہے ہمالیہ کے اندر ایک مقدس پہاڑ بھی تو ہے اور وہ پہاڑ جو کوہ پیما خواب میں دیکھتا ۔ہے شاہ گوری گوری ہو گوری تو میرے اندر رچ گئی ہے کوہ پیما کے لئے شاہ گوری ایک دنیا تھی اسکولے سے پرے تہذیب کے آخری گھر برالڈو کے اوپر گلاب رنگت کھیت اور ایک تھکا ہارا کوہ نورد اپنے بوٹوں کے تسمے کھولتا ہوا-
فاطمہ زہرہ ٹیچر فرام لاہور
———————————————-
میں دنیا کی تنہا ترین جگہ سے خوشی لینے جا رہا ہوں
خوشی ایک ایسا لفظ جس کی تلاش میں ہر شخص سرگرداں ہے اگرچہ چار مرغابیوں کا خوشی سے کوئی تعلق تو نہیں ہے تو کیا تنہائی اور تنہا ترین جگہوں سے خوشی کشید کرنے کے لیے ایک پر خطر برف زاروں کا سفر جائز ٹھہرتا ہے یقیناً جائز ٹھہرتا ہے کیونکہ یہ خوشی آپ ان لوگوں میں بانٹتے ہیں جنھوں نے آدھی دنیا کو گھر بیٹھے آپ کےسفر نامے پڑھتے ہوئےدیکھا ہے اور ان مناظر اور چیزوں کو سچ سمجھا اور آمین کہا جن کو زندگی نے ہمت فراغت ذوق اور وسائل سے نوازا وہ اپنی خوشی کی تلاش میں پشت پر خیمہ باندھے آپ کے نقشِ قدم پر چل پڑے اور کئی اپنے تخیل کے پر کھولے (خاص طور پر خواتین ) اس کے ٹو کہانی میں آپ کے ساتھ ہو لیے ایک ناول پڑھنے کے برعکس ایک سفر نامہ پڑھنا بہت ہی خوشگوار تجربہ ہوتا ہے کہ اس میں سارے کیریکٹر جگہیں اور واقعات حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں جس میں آپ اپنے تخیل سے خود رنگ بھرتے ہیں اور تخلیق کے مراحل سے گزرتے ہیں شاہ گوری چوغو لیزو براڈ پیک گشا برم کو اپنے حساب اور ترتیب سے کھڑا کرتے ہیں اور مشا برم کی چونچ خود جتنی آپ کا دل چاہے موڑ سکتے ہیں خالد ندیم بینکر مرزا صاحب عامر نعمان مرزا کے قدوقامت چال ڈھال سب آپ نے خود طے کرنے ہیں اور یہ سارے نقوش اس قدر گہرے ہوتے ہیں کہ اگر حقیقت میں کبھی ان سے ملنے کا اتفاق ہو جائے تو آپ گہرے صدمے میں بھی جا سکتے ہیں یہ تو وہ لوگ نہیں جنکے ساتھ آپ نے اتنے دن رفاقت کی طویل برف زاروں اور پر خطر گھاٹیوں وادیوں سے گزرے اور ڈاکٹر عمر کے معصوم بیٹے کی پیدائش پر جن لوگوں نے شریہنہ کے پتے یا درخت نہیں دیکھا وہ تربوز کے پتے بھی باندھ سکتے ہیں میں نے حشوپی کے باغوں میں لٹکتے سیب تو نہیں دیکھے لیکن سکردو کے سیب اور شمال کے کئی علاقوں میں زرد خوبانیوں کے سورج طلوع ہوتے ضرور دیکھے ہیں وادی شگر سے سے جو راستہ الگ ہو کر اوپر جاتا ہے میں اس پر نہیں چلی کہ وہ راستے جو الگ ہو کر جاتے ہیں ان پر چلنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا خاص طور پر خواتین کے لیے کیونکہ میری ٹیم نہا یت ہی سست اور آرام طلب ہے ان کو ہر جگہ فائیو سٹار سہولتیں ٹی وی کا شوروغل اور وائی فائی کی تیز سپیڈ چاہیے ہوتی ہے وہ شنگریلا جیسی جنت سے صرف اس لیے خپلو کا پر خطر اور دشوار سفر کر لیتے ہیں کہ انھیں پتہ چلتا ہے خپلو میں سرینہ ہوٹل ہے جب کہ میں انھیں خپلو کی خوبانیوں کی مٹھاس کا لالچ دے کر کئی دفعہ خپلو جانے پر رضامند کرنے کی کوشش کر چکی تھی اور سکردو اتنے دن رکنے کے لیے اس لیے مجبور تھےکہ واپسی کی ٹکٹ ہی اُتنے دن بعد کی تھی اور وہ سارا راستہ اس لیے شکر ادا کرتے آئے کہ وہاں پر ایک سرینہ ہے اور میں انھیں سمجھانے کی کوشش کرتی رہی کہ آپ اپنے ذوق کو کم از کم اتنا تو بلند کر سکتے ہیں جتنی بلندی پر آپ موجود ہیں اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک ایسی ٹیم جس میں آٹھ آنکھیں ہر وقت نہایت ہی خشک انداز میں گھورتی پائی جائیں آپ کیسے ایک گگھیائے ہوئے لیڈر ہو سکتے ہیں کہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہے چلیں خوابوں کے پیچھے جانے کی کوئی نہ کوئی قیمت تو ادا کرنی پڑتی ہے اور میں خاص طور پر اپنے میاں صاحب کی بےحد شکر گزار ہوں جنھوں نے پہاڑوں اور سفر ناموں سے عدم دلچسپی کے باوجود مجھے شمال کے لا تعداد سفر کروائے اور سچ میں کئی دفعہ خوار ہوتے ہوئے انھوں نے میری ہمت بندھائی حقیقت میں وہ بھی پہاڑوں خاص طور پر شمال کے اسیر ہو چکے ہیں لیکن اقرار نہیں کرتے
اور خدا کرےمیں شمال کے ایک ایسے سفر پر نکلوں جس کا آخری گاؤں اسکولےہو اسکولے شمال کا آخری گاؤں پتھر اور ویرانے سے ادھر آخری بستی اور اس سے پہلے تھنگل کے گلابی کھیت واہ جی واہ تھنگل کے ایسے مسحور کر دینے وال گلابی کھیت جن کے سحر کا مقابلہ ہر کوئی نہیں کر سکتا اور شاہد ندیم بھی ایسا مسحور ہو گیا کہ واپس سکردو بھیج دیا گیا اور سارے سفر میں گونجتی غلام محمد کی لگڑ بگڑ ہنسی اگرچہ میں نے آج تک کوئی لگڑ بگڑ نہیں دیکھا اور اس کو ہنستے ہوئے تو بلکل بھی نہیں دیکھا تارڑ سر منظر نگاری اس باریک بینی سے کرتے ہیں کہ منظر آپ کے سامنے اپنی پوری جزئیات کے ساتھ ابھرتا ہے اور ایک لمحہ بھی آپ اپنے کو اس سفر سے الگ نہیں کر پاتے ایک پر شور ہوتے دریا کو پار کے دوسرے کنارے پر ایک وسیع ہوتے ہوئے میدان کے کنارے ایک جھونپڑے میں رہتے شخص پر آپ صرف رشک ہی کر سکتے ہیں کیونکہ آپ وہاں رک نہیں سکتے آپ کو ابھی چلتے رہنا ہے بیافو کی بوتھی کے عین سامنے کیمپ لگانا ہے اور پولر ریجن کے باہر برف کی سب سے بڑی دنیا میں داخل ہو کر وحشی برا لڈو کے اوپر ایک بلند چٹان سے چمٹ کر ڈیتھ ڈراپ سے گزرنا ہے پائیوجانا ہے اور کنکورڈیا پہنچنا ہے نیلی زندگی کی نوید دیتی ترپال کے نیچے مالٹے کے ذائقے والا انرجائل پینا ہے اور منفی چودہ ڈگری پر جب پانی بھی بوتل میں جم جائے اس رات کی سحر کا انتظار کرنا ہےکیونکہ سفر ہے شرط آخر میں یہ نظم ان کے لیے جو اپنی خواہشوں کہ سفر پر نہ نکل سکے خاص طور پر خواتین کے لیے اگرچہ یہ تارڑ سر کی ہی رسول حمزہ توف کی نظم اے عورت سے متاثر ہو کر لکھنے کی کوشش ہے اے عورت دور بلند پہاڑوں میں ایک شخص دور تنہائی سے خوشی لینے جاتا ہے جس میں تیرے حصے کی خوشی بھی شامل ہے اس لیے تو اپنے تخیل کا در وا کر اور اپنی خواہشوں کے پر کھول دے اور زرد خوبانیوں کے طلوع ہوتے سورج دیکھ اور تھنگل کے گلابی کھیتوں کے اوپر پرواز کر گہرا سانس لے کہ تو آزاد ہے اپنے حصے کی خوشی کشید کرنے کے لیے اپنے بالوں کو کھول کیونکہ رسم و رواج کی بوجھل چادر اتر چکی ہے برا لڈو کے وحشی پانی اپنی چونچ میں بھر اور تو بھی وحشی اور سر مست ہو جا اور ایک سنہرے بدن والی مچھلی کی طرح یخ بستہ پانیوں میں تیر کہ ہر بدن اپنے وقت پر سنہرا ہوا کرتا ہے اے عورت دور بلند پہاڑوں میں دنیا کی تنہا ترین جگہ سے کوئی تمہارے لیے خوشی لایا ہے کے ٹو تعارف میرا نام اسماء گلفام باجوہ ہے ۔میں ایک ہاؤس وائف ہوں
رنگ پھول خوشبو کتابیں اور سفر یہ پانچ لفظ میری پوری زندگی پہ حاوی ہیں میرا شہر فیصل آباد ہے
بہاؤ
اسماء گلفام باجوہ
سرسوتی جو بڑے پانیوں کی ماں ہے۰۰۰۰۰۰
اور ساتویں ندی ہے
اس کے پانی آتے ہیں
شاندار اور بُلند آواز میں چنگھاڑتےہوئے
بہاؤ علامت ہے اُس زندگی کی جو آہستہ آہستہ فنا کی طرف بہتی جاتی ہےایک پرندے کی طرح اس وقت تک اُڑتی جاتی ہے جب تک اس کے پروں میں طاقتِ پرواز ہے یہاں تک کہ اس کے سفید دودھیا پروں کا رنگ بھورا پڑنا شروع ہوجائے اور رگوں میں تیرتی نمی سو کھ جاتی ہے لیکن وہ پھر بھی اڑنے پر مجبور ہے جھلستے آگ کی طرح تپتے صحرا کے اوپر جس کی تپش سے اس کے سوکھتےپروں سے چنگاریاں پھوٹنے کو ہیں اور اس کے پروں کے نیچے گزرتی خواہشوں کی ایسی جھیلیں ہیں جو ٹھنڈے ٹھار پانیوں سے لبریز ہیں اور ان میں اس کی نسل کے کئی پرندے اپنے پر پھڑپھڑاتے دُمیں اٹھائے چھینٹے اُڑاتے چہلیں کرتے ہیں اور اسے بھی اپنے پاس بلاتے ہیں لیکن وہ اُن سے صرفِ نظر کرتا اپنے جسم کی بچی ہوئی توانائیاں سمیٹتا آگے بڑھتا جاتا ہے کہ اس نے اپنی سمت تبدیل کر لی ہے وہ فنا کے راستے پر گامزن اس جھیل کی طرف محوِپرواز جس پر مرنے والے پرندے پہنچتے ہیں سر سبز رکھوں میں چھپی جھیل بھی اس کے لیے بے کشش ہے شایدیم کے کتے اس کے پروں کو سہارا دیے اڑائے چلے جاتے ہیں وہاں تک پہنچانے کہ اس کی نسل کے جتنے پرندے اب تک پیدا ہوئے اور اس سے پہلے اور بعد میں آنے والے بھی وہاں پر منتظر ہیں
اور خواہشات ہمیشہ ہی دو کی صورت میں ابھرتی ہیں ایک پوری بھی ہو جائے تو دوسری ہمیشہ ہی من میں پوشیدہ رہتی ہے اور اس کی کسک ہمیشہ بے چین کرتی ہے ور چن ہو یا سمرو انتخاب کی کشمش جاری رہتی ہے اور ہر زمانے کی پکلی تہذیب کے بدن پر خوبصورتی سے بوٹے الیکتی ہے اس کا کام ہی یہی ہےجھجھروں صحنکوں چاٹیوں ڈولوں اور گھڑوں کو سجانا اور کبھی کبھی کسی بدن پر ایسے بوٹے الیکنا کے دیکھنے والے ان بوٹوں کی خوبصورتی سے مسحور ہو کر اس بدن کا اسیر ہوجائے اور جکڑا جائے لیکن کوئی بھی بدن ہمیشہ نہیں رہتا چاہے اس پر کتنے ہی خوبصورت بوٹے کیوں نہ الیکے گئے ہوں اور نہ ہی ان کے اسیران تہذیب کا سراغ ہمیشہ ان مدفون گھڑوں اور جھجھروں کی ٹھیکریاں ہی دیتی ہیں اور ایسی پکلیوں کا ہنر ان ٹھیکریوں سے آنے والے زمانوں کو خبر دیتا ہے کہ انھوں نے کیسے کیسے زمانے دیکھ رکھے ہیں ہر چیز وقت کے بہاؤ میں اس پودے کی شاخ کی طرح بہہ جاتی ہے جو بلند پہاڑوں سے نکلتی ندیوں کے پانیوں میں بہتاپتھروں سے ٹکراتا دو ندیوں کے ملاپ سے گزر کر ایسے پانیوں کا حصہ بن جاتا ہے جو زمین کے سینے سے لگ کر بہتے ہیں اور زندگی کی نوید بن جاتا اُن کے لیے جو کب سے ان بڑے پانیوں کے منتظر ہوں بستیاں اور تہذیبیں کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں موہنجو داڑو ہری یوپیا کی طرح اور دریا اور ندیاں سرسوتی اور گھاگرا سب کا مقدر تاراج ہونا ہے بہاؤ رفتہ رفتہ نا محسوس طریقے سے سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے پانی آہستہ آہستہ سوکھ جاتے ہیں موہنجو داڑو اور ہری یوپیا جیسی بستیاں کھنڈر بن جاتی ہیں کئی ڈور گا اپنے جھکے ہوئے بدنوں سمیت ان بستیوں کی تعمیر میں جھکے جھکے ہمیشہ کے لیے کبڑے ہو جاتے ہیں بسانے والے بساتے ہیں اور اجاڑانے والے اجاڑتے ہیں کبھی اسوہ پر بیٹھ کر اونچی ناک والے لین دین کے بہانے آکر وہاں پر بسنے والوں کو نکال باہر کرتے ہیں اور وہ اپنی زمینوں میں ہی اجنبی ہو جاتے ہیں اور جنوروں کی طرح مارے مارے پھرتےہیں اور اتنے وحشی ہو جاتے ہیں کہ اپنے ہی ہم وطنوں اور ہم نسلوں کو مارنا شروع کر دیتے ہیں اجاڑانے والے نہیں دیکھتے کے ان تہذیبوں کو پروان چڑھانے میں کتنے لوگوں کا لہو کالک میں تبدیل ہو گیا اور یہ تہذیبیں موہنجوداڑو ہوں یا شام اور عراق کے قدیم شہر اجاڑانے والے نہیں دیکھتے لیکن جب تک پارو شنی کے پاس چند دانے کنک کے ہیں اور اس کی کوکھ ہری ہے تب تک بڑے پانی آتے رہیں گے اور ان کے کنارے نئی تہذیبیں آباد ہوتی رہیں گی
اور بہاؤ یونہی جاری رہے گا
عظمیٰ جبیں
”بہاؤ——-ادب کی مونا لیزا”
مین نے پہلے بھی ایک بار کہا تھا کہ تارڑ صاحب انسانی فطرت کےاسرار ورموز سے بہت اچھی طرح واقف ہیں اسی لئےان کے قلم سے حیات پانے والی تحریریں ہمیں اپنے دل سے اٹھنے والے سوالوں کا جواب محسوس ہوتی ہیں،میرے لئے ‘بہاؤ’ بھی ایک ایسی تحریر ہے جو میرے بہت سے سوالوں کا جواب ہے-تاریخ کی طالبعلم ہونے کی بنا پر ماضی سے میرا رابطہ استوار رہتا ہےاور وہیں یہ سوال بار بارسر اُٹھاتا رہا ہے کہ تاریخ ہمیشہ سیا سی بنیادوں پر کیوں مرتب کی جاتی ہے-کیا یہ کھلا تضادنہیں کہ حاکم کا تذکرہ تو ہو لیکن محکوموں کی کوئی خیر خبر پتہ نہ چلے، بھلا یہ کیا بات ہوئی ؟ پھر وقت نے سمجھایا کہ تاریخ حکمرانوں کی اور ادب عوام کی زندگی کا آئینہ ہوا کرتا ہے-یہ گتھی سلجھی تو میں نے ادب کو کھنگالنا شروع کیا-قرۃ العین حیدر کی تحریریں ہوں،انتظار حسین کی یا منشی پریم چند کی ان میں ایک عہد کے لوگوں کی زندگیاں حنوط ہو چکی ہیں ،جو ہمارے جیسے طالبعلموں کے لئے سماجی تاریخ کا ایک دلچسپ اور متنوع عجائب گھر ہیں- کسی ادیب کے لئے اپنے عہد کی بات کرنا ایک فطری عمل ہے لیکن یہ آیک کاری گری ہے کہ وہ آنے والے عہد کی منظر کشی کرے یا گذرے عہد کو مجسم کر کےپیش کر دے اس عمل میں اس کی تخلیقیت اپنی معراج پر ہوتی ہے-ایسا ہی کچھ بہاؤ میں نظر آتا ہے-یہ وقت کا بہاؤ بھی ہے ،زندگی کا بہاؤ بھی ،زندگی بخش پانی کا بہاؤ بھی، تاریخ کا بہاؤ بھی،جذبات اور احساسات کا بہاؤ بھی اور سوچ کا بہاؤ بھی جس کے ساتھ تارڑ صاحب نے حال سے ماضی کا سفر کیا-ان کی کردار نگاری اس ناول میں بھی اپنے عروج پر ہے -کیونکہ ان کےتخلیق کردہ کرداروں کے ساتھ ہماراایک تعلق بن جاتا ہے اور ناول ختم کرنے کے بعد وہ صفحات میں دفن نہیں رہ جاتے بلکہ اس سے باہر نکل آتے ہیں ہمارے ساتھ ہی رہنے لگ جاتے ہیں -ہم ان کو بھول نہیں جاتے بلکہ ورچن اور پاروشنی ایک استعارہ بن جاتے ہیں——امر ہو جاتے ہیں اور یہی تخلیق کار کا کمال ہے -میں جب موہنجو یا ہڑپہ کے کھنڈروں کے پاس کھڑی ہو کر ان ستواں گلیوں کو دیکھتی ہوں تو وہ مجھے اجنبی نہیں لگتیں ،ان کے باسی مجھے غیر مرئی اور مافوق الفطرت نہیں لگتے بلکہ ان کی چلتی پھرتی شبیہیں میرے سامنے آجاتی ہیں تو یہ کس کا کمال ہے،اس لکھاری کا جسے ہم تارڑ سائیں اور مرشد سائیں کہتے ہیں-انہوں نے تاریخ کو ادب اور ادب کو تاریخ میں اس طرح آمیز کر دیا ہے کہ مجھ جیسے بے شمار لوگ گویا ماضی میں جھانکنے والا ایک جھروکا پا گئے ہیں -اس تحریر نےگویا ہم میں اپنی تاریخ پر جذبہِ تفاخر پیدا کیا ہے-اور ہمیں اس بات کا شعور بخشا ہے کہ وہ بھی ہم جیسے انسان تھے ،ایسے ہی جذبوں کے مالک تھے،ایسی ہی روزمرہ استعمال کی خوبصورت چیزیں تخلیق کرنے کا ملکہ رکھتے تھے- کامیاب بھی تھے اور غلطیاں بھی کرتے تھے-میں سمجھتی ہوں تارڑ صاحب نے لفظوں سےایک ایسی تصویر پینٹ کی ہے جس میں قوسِ قزح کے سارے رنگ ہیں ، انسانی زندگی کے جذبوں کی نرمی اور کاٹ ہے ،دکھ کی پرچھائیں ہے اور پراسرار مسکراہٹ ہےجس سے یہ تصویر بلا شبہ ادب کی مونا لیزا بن گئی ہے-،،،،،،!
اظہار
میں نے “بہاؤ” شروع کیا تو کہیں سے گرم ہوا کا جھونکا آیا۔۔۔ میں نے سٹڈی ٹیبل سے نظر اُٹھائی اور کھڑکی سے باہر جھانکا۔۔ صحن کی حد پر کھڑی چار دیواری اپنے قدموں پر گری اور اُس کی حد سے پرے ریگزار نظر آنے لگا۔۔۔ میں کتاب ہاتھ میں لیے سٹڈی سے باہر آ گیا۔۔۔ ریت پر چلنا شروع کیا تو دائیں جانب ایک سُوکھتی ہوئی جھیل دکھائی دی جس کے قریب مردہ پرندوں کی چرمراتی ہوئی ہڈیوں کا ڈھیر تھا۔۔۔ ایک لڑکی جس کی کلائیوں میں کہنیوں تک سفید چوڑیاں تھی اور کمر سے کپڑا کسے ہوئے تھی جھیل کی جانب چل رہی تھی۔۔۔ جانے کیا کچھ سوچ رہی تھی۔۔۔
ابھی میں اُس لڑکی کے من میں جاگتے ہوئے جوت گِن رہا تھا کہ مجھے اپنے عقب سے شرلاٹے مارتے ہوئے پانی کی آواز آئی۔۔۔ میں ایک اُونچے ٹیلے پر تھا۔۔۔ مُڑ کر دیکھتا ہوں تو شیر دریا کے بڑھتے اور پھیلتے ہوئے پانی ہر اونچ نیچ کو اپنے پھیلے ہوئے دامن میں سمیٹے چلے آرہے ہیں۔۔۔ بستی کے لوگ پانیوں کے آنے پر خوش ہوتے ہیں۔۔ میں اُنہیں بتانا چاہتا تھا کہ آنے والے دنوں میں بڑھتے اور پھیلتے ہوئے پانیوں کو نحوست کہا جائے گا۔۔ تم کاہے خوش ہوتے ہو۔۔۔ پانی دوست نہیں ہے۔۔۔ پر وہ سُنتے نہیں تھے۔۔۔ایسے مورکھ کی بات کون سُنتا ہے۔۔ بس وہ خوش تھے۔۔۔
میں آگے بڑھا۔۔۔
دیکھتا ہوں کہ ایک لڑکا ہے۔۔۔ جو آوارہ گرد ہے۔۔۔ جس کی روح میں سفر کرنا داخل ہے۔۔۔ یہ لڑکا سفر پر نکلتا ہے۔۔ ہر اُٹھتے قدم کے ساتھ نظریں مُڑ مُڑ کر کسی ایک کو تلاشتی ہیں۔۔۔ کبھی وہ اُس ایک کو ریلوے سٹیشن پر پڑی لال گٹھڑی کی صورت میں دیکھتا ہے۔۔۔ کبھی سندھو کے پانی میں غوطہ لگاتے دیکھتا ہے۔۔مگر پلک جھپکنے پر سب راکھ ہو جاتا ہے۔۔۔ یہ لڑکا وہی ہے۔۔۔ اِس کو خود نہیں معلوم کہ وہ محبت کا ملاپ چاہتا ہے یا سفر کرنا چاہتا ہے۔۔۔ یہاں اِس بستی میں اُس لڑکے کا نام ورچن بتایا جا رہا ہے۔۔۔
میں تھوڑا اور بڑھتا ہوں۔۔۔
ایک ہاتھ ہے۔۔۔ بس ایک ہاتھ ۔۔۔ وہ پھول بوٹے کاڑھ رہا ہے۔۔۔ میرا جی چاہا میں قمیض کی آستین چڑھا کر اپنا بازو آگے کر دوں کہ “دیکھو اے پیارے ہاتھ !!! کچھ یہاں بھی اُلیک دو۔۔ میں آنے والے زمانوں کا ہوں۔۔۔ وہاں ایسا کوئی کچھ نہیں اُلیکتا۔۔۔ وہاں نفرتوں کے بیج بوئے جا ریے ہیں۔۔۔ کوئی میری بات نہیں سُنتا۔۔۔ تم تو سُنو۔۔۔ بس ایک پھول بنا دو۔۔۔”
پر میں کہہ نہیں پایا۔۔ وہ ہاتھ اپنے کام میں جتا رہا۔۔۔ نفرتوں کے زمانوں سے آئے ہوئے کی زبان بھلا یہ محبت اُلیکنے والے ہاتھ کیونکر سمجھ سکتے تھے۔۔۔
مجھے آگے چلنا تھا۔۔۔
درختوں کے جُھنڈ سے مور کے بولنے کی آواز آئی۔۔۔ مجھے یقین ہے وہ اب بھی وہیں ہے۔۔
چلتے چلتے میں اُس لڑکی کے گھر کے قریب سے گُزرا۔۔۔ وہ لیٹی تھی۔۔۔ کنویں کے مُنڈیر پر۔۔۔ کنویں کے ٹھنڈے پانیوں سے اُٹھتی خنک ہوا مجھے اپنی گردن پر محسوس ہوئی۔۔۔ میں دم بھر کو ٹھہر گیا۔۔۔
موہنجو کی پکی گلیوں سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آنے لگی۔۔۔ وہ آباد تھا۔۔۔ آنے والے زمانوں کے شہروں سے زیادہ آباد۔۔۔
میں ناؤ میں بیٹھ کر ورچن کی بستی میں واپس آ گیا۔۔۔
بستی ختم ہو رہی تھی۔۔۔ پانی اُتر رہا تھا۔۔۔ دریا پار جانے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔۔۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ لڑکی ریت پر اوندھے منہ پڑی تھی۔۔۔ اور اُسے آنے والے کچھ مہینوں کے گزر جانے کی اُمید زندہ رکھے ہوئے تھی۔۔۔
سفر تمام ہوا۔۔۔ میں سٹڈی میں تھا۔۔۔ کھڑکی سے باہر صحن کی حد سے پرے، چار دیواری کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔۔
نکلے تیری تلاش میں ” پر “شاہ جی” تبصرہ نگاری
۔
